آج کے ترقی یافتہ اور پُرفتن دور میں ہر طرف سے تعلیمِ نسواں اور آزادئ نسواں کا ڈنڈھورا بہت زور وشور سے پیٹا جارہا ہے اور اس
کا اعلان ایسے دلفریب انداز میں کیا جاتا ہے کہ ہر کس وناکس چار ونا چار اس کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے،لیکن بنیادی حیثیت سے تعلیم
اور طرقِ تعلیم پر کافی حد تک غور وفکر کرنے کی ضرورت تھی،اس کے بعد جب صورتِ حال سامنے آجاتی کہ کس تعلیم کا
حاصل کرنا ضروری ہے اور کس ماحول میں رہ کر، پھر اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے تھا، لیکن علمی کج فہمی کی وجہ سے ایسا ہونا مشکل ہوگیا۔
لوگوں کو جب یہ بتلایا جاتا ہے کہ اپنی بچیوں کو مکاتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدمڈل جونیئر ہائی اسکول میں پڑھنے کے لیے اس
کے مضر اثرات کی وجہ سے نہ بھیجا جائے، بلکہ گاؤں یا اپنے اپنے علاقہ میں جو سمجھدار پڑھی لکھی خاتون ہوں اور مخصوص مسائل کی
جانکاری رکھتی ہوں ان سے پڑھ لیا کریں یہ ان کی ضروریاتِ دین اور ضروریات زندگی کے لیے کافی ہے، لیکن لوگوں نے شادی
بیاہ وغیرہ کا عذر پیش کرکے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی،اور مخلوط نظامِ تعلیم والے کالجوں میں بھیجنے لگے۔
نیز یہ کوشش کی کی گئی کہ مکاتب میں مسائل کو پڑھانے کے لیے کسی معلمہ کا انتظام کریا جائے ﴿اپنے طور پر کوئی گاؤں وغیرہ میں
کسی کے گھر جا کر اس طرح کے مسائل کے بارے میں استفسار کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے مشکل تھا﴾ حالات سازگار نہ ہونے کی
وجہ سے ایسا نہ ہوسکا، نیز اسکول وکالج کے مخلوط نظامِ تعلیم کے مفاسد کئی دفعہ سننے میں آئے اور آتے رہتے ہیں۔
لہذا احباب وغیرہ سے مشورہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اسکول وکالج کی طرف طالبات کے بڑھتے رجحانات کے سدِّ باب
کے لیے اس کا نعم البدل پیش کرنا ضروری ہے، اور صرف بیانات اور آراء پیش کرنے سے بات نہیں بنے گی، تاکہ کسی کے لیے یہ
عذر باقی نہ رہ جائے کہ مکتب کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ہم اپنی بچیوں کو کہاں پڑھائیں، اسکول و کالج کے سوا کوئی دینی ادارہ
نہیں ہے۔
اسی سدِّ باب کے پیشِ نظر 22 /جمادی الثانیہ 1434ھ مطابق 4/ مئی 2013ء کو جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات
کیتھولیا کا قیام عمل میں آیا، الحمد للہ ادارہ قائم ہوتے ہی بہت سی بچیاں جو اس طرح کے اسکولوں میں پڑھ رہی تھیں واپس آئیں اور
وہاں جانے سے رک گئیں، تقریبا ایک سال کے تجربہ سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ دینی علوم اور دینی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل
کرنے کا ہماری طالبات اور ان کے والدین کو شوق اور اس کا اہتمام ضرور ہے لیکن اس دینی ماحول کا انتظام ہونا چاہئے۔
لہذا اس امید پر یہ قدم اٹھایا گیا کہ اللہ تعالی دینی خدمت کرنے والے لوگوں میں ادنی اور حقیر کوشش کے نتیجے میں احقر کا بھی شمار
کرلے، ذخیرہ آخرت ومغفرت بنا دے اور خاتمہ بالخیر کی توفیق عطا فرما دے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اس گلستاں کو اپنی حفاظت وصیانت میں رکھتے ہوئے بارآور اور مثمر فرمائیں اور علاقہ کے لیے مینارۂ
نور بنادیں۔ آمین۔
احقر کتاب اللہ عفی عنہ
خادم جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات الاسلامیہ کیتھولیا ، سنت کبیر نگر
بتاریخ 21 رجب 1435ھ مطابق 21/مئی 2014، بروز چہار شنبہ